تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط 20
....................
دن اپنی رفتار سے گزر رہے تھے جیری کو اس کوٹھے پر آئے ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا اس دوران اُسنے اُس کوٹھے کے ہر ایک شخص کا ڈیٹا حاصل کر لیا تھا. یہاں پر موجود ہر شخص برے کاموں میں ملوث تھا.
اور اُنکے ہیڈ تھے . جیوری ، مبین اور ایک آدمی جو کہ ہفتے میں ایک بار یہاں پر آتا اور یہاں کا حساب کتاب لے کر جاتا جیری بہت جدّو جہد کے بعد بھی اُس شخص کو نہیں دیکھ پائی تھی
وُہ شخص کون تھا کہاں رہتا تھا اور اسکا مقصد کیا تھا کچھ نہیں پتہ لگا پائی اُس شخص کے بارے میں. بس اتنا جانتی تھی کہ یہ شخص ان سب کا سردار ہے......
اس ایک ماہ میں جیری نے بہت سی فائلیں اور بہت سے خفیہ لوگوں کا پتہ لگا لیا تھا حیرت کی بات یہ تھی جو ڈیٹا اسکو مسٹر ایکس کے بارے میں ملا اُسکے لیے نا قابلِ یقین تھا...
اسکو جو ڈیٹا ایک آفیسرز سے موصول ہوا اور جو ڈیٹا اسکو خود سے موصول ہوا اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا..... انسپکٹر منیش جو کہ جیری سے کانٹیکٹ میں تھا اُسنے اپنی معلومات کے حساب سے جیری کو بتایا تھا کہ مسٹر ایکس کوئی تیس پینتیس سال کا بی جوان ہے جبکہ جیری نے جس مسٹر ایکس کو دیکھا وُہ ایک پچاس سال کا آدمی تھا.....
بات یوں تھی کہ کوٹھے پر چہل پہل تھی معمول سے ہٹکے سب اپنے اپنے کاموں میں لگے پڑے تھے آج کی رات کوٹھے پر مسٹر ایکس کی آمد تھی اور اس وجہ سے سب طوائفیں اپنی اپنی تیاریوں میں مہو مسٹر ایکس کو لبھانے کے انتظام میں سر دیے جٹی پڑی تھی.....
"آپی یہ لوگ اتنے خوش اور اتنی تیاریاں کیوں کر رہے ہیں؟ عمائمہ جو کہ جیری کے ساتھ کوٹھے پر راؤنڈ لگانے کی غرض سے نکلی تھی باہر کی چہل پہل کو دیکھ اُسنے جیری سے پوچھا....
"پتہ نہیں عمائمہ!! ہمیں بھی آج حیرت ہو رہی ہے کہ کیوں اتنی تیاریاں اس کوٹھے پر ہو رہی ہے آج؟ سوچتے ہوئے جیری نے اُن سب کو دیکھ کر کہا...
"آپی کوئی تو بات ہوگی نہ جسکی اتنی تیاری چل رہی یہاں پر ؟؟؟ اندازہ لگاتے ہوئے عمائمہ نے ایک بار پھر پوچھا۔۔۔۔
"ہاں کچھ تو بات ہے !! اُسکی تائید کرتے ہوئے جیری نے اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی... عمائمہ آپ روم میں جاؤ میں آتی ہوں! وُہ بول کر وہاں سے جیوری بیگم کے خواب گاہ کی طرف چل دی جبکہ عمائمہ کمرے کی طرف چل دی....
وُہ جب جیوری بیگم کی خواب گاہ کے باہر پہنچی تو اندر سے اسکو آواز سنائی دی....
"جی مسٹر ایکس مال بہت اچھا ہے ! ہاں !!! آپکی توقع کے مطابق بہت اعلیٰ .... ہاں آج بلکہ ابھی کُچّھ دیر میں چہلم کا میلہ لگ جائے گا.. جس میں سب سے زیادہ پیسہ ہمیں ایک لڑکی سے موصول ہوگا....
"آج عمائمہ کی فروختی کے بعد میں کیسے بھی کر کے جیا نام کی لڑکی کو آپکے پاس بھیجتی ہوں پھر آپکو جو کرنا ہے کر لیجئے گا... " بسس بس مسٹر ایکس ہماری رقم وقت پر ہمارے پاس پہنچا دیجئے گا اور ہاں .. آج رات بارہ بجے اسمگلنگ میں جانے والی لڑکیاں آپ کے پاس پہنچا دی جائے گی اور اُسکے ساتھ مبین ائے گی آپ اسکو چیک دے دیجئے گا....
جیری کو اب سمجھ آیا تھا کہ بات کیا ہے ؟ "اوہ ہ تو یہ ماجرا ہے !!! خیر جیوری بیگم جتنی دیکھنے میں تُم بیوقوف لگتی ہو پر ہو نہیں !! ۔۔
"خیر جو تُم چاہو گی ہوگا وہی ۔ موہرا آپ ہوگی جبکہ چال میری ...... ! اُسنے مسکراتے ہوئے دروازے پر دستک دی..
ٹھٹتٹیکّ !!! دو تین دستک کے بعد اندر سے دروازہ خول دیا گیا.....
"گڈ مارننگ جیوری !! کیسی ہے آپ ؟ مسکراتے ہوئے جیری نے پوچھا جبکہ چہرے کے ایکسپریشن ایسے بنا لیے تھے جیسے اُسنے کُچّھ سنا ہی نہ ہو۔
جیری کو دیکھ جیوری کا چہرا زرد پڑ گیا تھا ہوائیں اُسکے چہرے سے صاف اُڑتی نظر آ رہی تھی...
"کک کیا ہوا جیوری ؟ آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ؟ چہرے پر فکرمندی کا تاثر سجائے اُسنے جیوری کا ماتھا چھوا تھا... "ہائے !! آپکا تو بلڈ پریشر کافی ہائی لگ رہا ہے ایک منٹ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں .. پاکٹ سے موبائل نکالتے ہوئے اُسنے ایک نمبر ڈائل کرنے لگی تھی کہ جیوری بیگم جلدی سے بولی...
"ارے نہیں نہیں جیا میں ٹھیک ہوں !! آئی ایم فائن .. تُم تو ایسے ہی بے وجہ فکر مند ہو رہی ہو. ارے باہر کیوں کھڑی ہو ؟ اندر آؤ بھئ!! جیوری نے جلدی سے خود کو سمبھالا اور بولی تھی....
"اوکے آپ کہتی ہے تو مان لیتی ہوں..!! وُہ اندر آتے ہوئے بولی تھی. " بائے دا وے جیوری!! آج کوٹھے پر کچھ خاص ہے کیا ؟ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے جیری نے کہا تھا... جیوری اُسکے ہی برابر میں بیٹھ گئی تھی. "ہاں !! بہت خاص یہ دن ہم طوائفوں کے لیے بہت اہم دن ہوتا ہے ... آج ہمارے طوائف خانے میں بڑے بڑے لوگ ائے گے. اور پھر اُنکے سامنے ساری طوائفیں ایک ایک کرکے رقص کرے گی یہ پروگرام پوری رات کا ہوگا اُسکے بعد اُن لوگوں کو جو بھی طوائف پسند ائے گی اُسکی بڑی قیمت لگائی جائے گی.. جسنے بھی سب سے زیادہ قیمت دے دی اسکو وُہ فروخت کر دی جائے گی... مسکرا کر جیوری بیگم جیری کو بتہ رہی تھی.... "ارے واہ یہ تو بہت ہی لطف دینے والا لگتا ہے... "چلے پھر میں بھی چلتی ہوں اور ساتھ میں عمائمہ کو بھی لے کر جاتی ہوں کیونکہ آج آپ اسکو پیش کر دینا ... خوشی سے جیری۔ نے جیوری سے کہا تھا...
"ہمم لے جاؤ ! "ایک کام کرو تُم باہر نا جاؤ یہی پر تیار ہو جاؤ.. جیوری نے جیری سے کہا تھا۔۔۔۔
جیری کے ایک دم سے چہرے کے تاثرات بدلے تھے.. اُسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھ جیوری بیگم جلدی سے بولی .. " ارے میں تو ویسے ہی بول رہی تھی کہ کہیں تھک نا جاؤ .. خیر تُم جاؤ !! اور جلدی آ جانا...
"ہہہہ!!! وُہ کھڑی ہو گئی تھی اور پھر بولی " آئی میٹ یو ان سلیبریشن .." ایک نئے زور دار دھماکے کے ساتھ یہ بات اُسنے دل میں سوچ کر مسکرا دی اور کمرے سے باہر نکل گئی تھی آنکھوں کی چمک کچھ اور ہی بیان کر رہی تھی۔۔۔
پالینا مجھے جب میں کچھ پاؤں
بھول جانا مجھے اگر میں کچھ کھو دوں
از خود
................❤️❤️❤️❤️❤️
سارا سامان اپنے بیگ میں ڈالتے ہوئے اُسنے عمائمہ سے پوچھا تھا "عمائمہ آپ تیار ہے نہ ؟ عمائمہ جو آج اپنی آزادی پر بہت خوش تھی اس بات سے بے خبر کہ اس کی یہ خوشی چند پل کی ہی ہے ..
"آپی ایک بات پوچھے ؟ عمائمہ نے جیری کی طرف دیکھ کر پوچھا.. "جی جانِ آپی پوچھو !! اُسنے مسکرا کر پلنگ سے اپنا دوپٹہ اٹھایا...
"آپی اتنے دن ہمکو یہاں کوٹھے پر ہو گئے ہیں .. "کیا ہماری فیملی ہمیں قبول کر لے گی ؟ کئی دنوں سے یہ ڈر عمائمہ کے دل میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُسکی فیملی اسکو قبول کرے گی بھی کہ نہیں ....
دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے جیری کے ہاتھ ٹھمیں تھے.. لبوں پر کفل لگ گیا تھا جبکہ ہاتھوں میں لرزش واضح طور نظر آ رہی تھی..
تھوڑا وقت جیری نے خود کو کمپوز کرنے میں لیا تھا اور چہرے کے تاثر ٹھیک کیے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکو اپنے چہرے پر مسکراہٹ لانی پڑی حالانکہ دل دھاڑے مار مار کر رونے کو کیا تھا.. وُہ دن اسکو یاد آیا تھا جب اس کی ماں نے اُس سے کچھ بھی پوچھنا گوارہ نہ کیا تھا اور اپنی شوہر نامراد کی باتوں اور ایمان لاتے ہوئے اسکو گھر سے نکل جانے۔ کا آرڈر سنا ڈالا تھا....
یہ زندگی ہے گڑیاں زندگی کیا کچھ نہیں سکھاتے یہ انسان کو انسان کے ضمیر کو مار کے بے خوف بنا دیتی ہے یہ کمزور کو طاقتور اور طاقتور کو کمزور کب یہ انسان کی شکل صورت دیکھتی ہے اسکو نہ شکل سے پیار ہے نہ صورت سے اور نہ ہی سیرت سے
اگر اسکو کسی چیز سے محبّت ہے وُہ ہے سانسیں۔ سانس ہے تو زندگی ہے ورنہ زندگی کے کوئی معائنے نہیں ہے...
وُہ مجسمہ بنی سوچ رہی تھی.. زخم اتنے گہرے تھے کہ بھرنے کے بجائے اور زیادہ زخم ہوتے جا رہے تھے.. ہے زخم میں اتنا شدید درد تھا کہ خون نے بھی رسنے سے مناہی کر دی تھی.. ساتھ چھوڑ دیا تھا سب نے تنہا کر دیا اُسکے وجود کو سب نے اگر کوئی ساتھ تھا تو وہ تھا اُسکا درد جو شائد کبھی ساتھ نہ چھوڑتا اور نہ چھوڑنے کا وعدہ بھی کے چکا تھا...
"آپی اتنا کیا سوچ رہی ہے ؟ مجھے بتائے نہ کہ کیا مجھے میرے فیملی قبول کرے گی ؟ کندھوں سے جھنجوڑ کر ایک بار پھر عمائمہ نے آنکھوں میں آنسوؤں کو لیے جیری سے سوال کیا...
"آں ں ں !! اُسنے چونک کر جیری نے عمائمہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔
میری بات غور سے سنو !! دیکھو جان آپکو چھوٹی بہن مانتی ہوں.. اس لیے جو بھی آپکو بتاؤں گی آپکے بہتری کے لیے ہی کہوں گی ۔۔
جان ! میں نہیں جانتی آپکی فیملی آپکو قبول کرے گی بھی کہ نہیں. لیکن میں اتنا جانتی ہوں ایک عورت کو جب وہ سوچ سمجھ والی ہو جائے تو اسکو چاہئے کہ وہ زیادہ کسی سے امیدیں وابستہ نہ رکھیں..
"لیکن آپی وُہ میرے ماں باپ ہے اُن سے میں اُمید کیوں نہ رکھوں ؟ عمائمہ نے عجیب سی نظروں سے جیری کو دیکھ کر کہا تھا...
"جان پتہ ہے وُہ آپکے ماں باپ ہے . لیکن کبھی کبھی حد سے زیادہ امیدیں انسان کو لے ڈوبتی ہے. امیدیں انسان سے نہیں اللّٰہ سے رکھو وُہ جو کر گا اچھا کرے گا۔
"پر آپی !! وُہ ابھی مزید بولتی کہ جیری نے اسکو کندھوں سے تھاما تھا اور اُسکا چہرا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا اور بہت ہی شائستہ لحظے میں بولی
"زندگی نے مجھے سکھایا ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی سے زیادہ وابستہ نہیں ہونا چاہیے جب تک کہ وہ بھی آپ کے ساتھ ایسا محسوس نہ کریں ، کیونکہ ایک طرفہ توقعات آپ کو ذہنی طور پر تباہ کر سکتی ہیں۔
"اور اب زیادہ نہ سوچو اللّٰہ پر چھوڑ دو سب قسمت وُہ لکھتا ہے جو آپکی قسمت میں ہوگا بہتر ہوگا.. باتیں بعد میں اب جلدی سے چلو میرے ساتھ.. جیری نے مسکرا کر کہا تھا ایک درد تھا اُسکی مسکراہٹ میں جو عمائمہ نے محسوس کیا تھا....
"جی !! وُہ دونوں آگے پیچھے باہر نکلے تھے..
"جیا تُم کہاں جا رہی ہو ؟ جب وہ اپنے کمرے سے نکل ہول کی طرف جا رہی تھی جب ایک لڑکی نے جو کہ بہت سزی سنوری دکھ رہی تھی اُسنے اُن دونوں کو دیکھ کر پوچھا..
"ارے ارم تمہیں پتہ نہیں ہے کیا ؟ چلو میں بتاتی ہوں جیا پارلر میں تیار ہونے کے لیے جا رہی ہے رات کے فنکشن کے لیے .. جیری کے بجائے عمائمہ نے مسکرا کر بتایا تھا... "اور تُم ؟ ایک ادا سے اُس لڑکی نے منہ کو ٹیڑھا میڑھا کر کے پوچھا...
"اور یہ بھی میرے ساتھ جا رہی ہے ! اس بار جیری نے بتایا تھا.. " میں ابھی جیوری کو بتہ کر آئی کہ آپ اس عمائمہ کو باہر لے کر جا رہی ہے.. اُس لڑکی نے منہ چڑھا کر کہا..
"محترمہ ارم صاحبہ اچھا ہوگا کہ اپنے کام سے کام رکھوں ورنہ جیا سے زیادہ زبان درازی کرنے کہا خمیازہ بہت مہنگا پڑے گا اور ہاں آئندہ جب میں کہیں باہر جاؤں تو ٹوکنا نہیں کیونکہ پھر مجھے صدقۃ دینا پڑتا ہے...
وُہ بول کر آگے بڑھ گئی تھی.. پیچھے سے ارم نے بھرپور طریقے سے اسکو گھورا تھا... " ہہہہ نہ جانے خود کو کیا سمجھتی ہے ! بالوں کو جھٹکتے ہوئے وُہ آگے بڑھ گئی تھی...
جیری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی جبکہ عمائمہ کا تو قہقہ بلند تھا "ھاھاھاھا ....
.......................❤️❤️❤️❤️
"سر !! سیلوٹ کرتے ہوئے ایک آفیسر شام کے پاس آیا.
"کیا انفارمیشن لائے ہو ؟ مدّے پر آتے ہوئے شام۔نے سامنے کھڑے آفیسر سے پوچھا۔
"سر آج رات اسمگلنگ ہونے والی ہے جسکو ریسیو خود مسٹر ایکس کرے گا اور تو اور سر کوٹھے سے جو انفارمیشن ہم کو ملی ہے وہ بہت عجیب ہے...
"کون سی انفارمیشن ؟ شام اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا تھا. "سر جو ہمکو دکھایا جا رہا ہے وُہ ہے نہیں اور جو ہم سے پوشیدہ ہے وُہ ہے ..
اُس آفیسر نے شام کو بتایا ۔" ایس ایچ او منیش!!! آپ پہیلیاں بھوجانی بند کریں اور صاف صاف بتائے۔۔ چہرے پر سختی کے تاثرات لیے میجر شام نے منیش سے کہا تھا...
"سر اصل میں بات یہ ہے کہ جو کیپٹن جیری نے منیش سے کہا تھا سب شام کے گوش گزار کر دی تھی....
" ہہہہہہ !! یعنی میرا شک صحیح تھا... اچھا ایک کام کرو کیپٹن جیری سے میری ملاقات کرواؤ ... شام نے کچھ سوچتے ہوئے منیش سے کہا تھا...
"سر آئی ول ٹرائے بٹ !!! شام نے منیش کی طرف دیکھا..
"سر کیپٹن جیری آج رات مسٹر ایکس کے ساتھ!! یہ بول کر منیش نے میجر شام کی طرف دیکھا جسکی آنکھوں میں غصے کی چنگاری اٹھتی نظر آئی منیش کو دیر نہیں لگی تھی یہ سمجھنے میں کہ میجر شام اگلی بات کو سن کر مشتعل نہ ہو جائے۔۔
خیر بتانا تو تھا.. سر!! آج کی رات کیپٹن جیری مسٹر ایکس کے ساتھ اُنکے فارم ہاؤس جائے گی. اور اُنہونے یہ بات آپکو بتانے سے منع کی تھی..
"یہ نہیں ہونے دوں گا میں!!! اُسنے منیش کی بتائی گئی باتوں کو دل میں غصے سے سوچا تھا۔۔۔
"میں تمہیں کھونے کا رسک نہیں لے سکتا!!!!! وُہ سوچوں کہ بھنورے میں ڈوبا ہوا تھا منیش کی آواز پر وُہ جلدی سے اُسکی طرف متوجہ ہوا....
"سر!!! آر یو اوکے ؟ فکرمندی سے منیش نے پوچھا وُہ پریشان ہو گیا تھا ایک دم میجر شام کے اس کہی خو جانے والے رویہ سے...
"یاہ !! ایس ایچ او منیش .... آپ بتائے آپ کچھ بتا رہے تھے نہ مجھے ... شام نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا ...
"ہاں وُہ سر !!! یہ کچھ فائلیں ہے جس میں کوٹھے پر جیتنے بھی شخص ہے جو کہ اسمگلنگ میں اتنے ہی حصے دار جیتنے مسٹر ایکس ہے اُن سب کی اس فائل میں لسٹ ہے...
آپ چیک کر لیجئے اور ہمیں اگلا قدم اُٹھانے کا آرڈر دے.. فائل کو سامنے رکھتے ہوئے منیش نے کہا تھا...
"اوکے میں دیکھتا ہوں!!! یہ بول کر شام فائل کا مطالعہ کرنے لگا تھا جبکہ منیش سلیوٹ کرتے ہوئے آفس سے نکل گیا تھا....
ایک گھنٹے کی گردگانی کے بعد شام نے فون اٹھاتے ہوئے ایک ارجنٹلی میٹنگ کا بولا جس میں سارے آفیسرز کی سمولیت ضروری تھی...
"جے ہند سر ! جے ہند میجر شام .. دوسری طرف سے بھی جے ہند کہا گیا.. "سر مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے کیا آپکے دس منٹ مجھے مل سکتے ہیں..
میجر شام نے اپنے ہیڈ سے کہا تھا.. "سیور میجر شام آپ میرے آفس آ جائے.. فون کاٹ دیا گیا تھا.. میجر شام اپنی کیپ اٹھاتے ہوئے آفس سے نکل گیا تھا دس منٹ بعد وُہ اپنے کرنل محمود کے آفیس میں کھڑا تھا....
"سر یہ فائل ! فائل دیتے ہوئے وُہ سیدھا ہوا..
"سر آج رات یو ایس اے میں اسمگلنگ جو کہ لڑکیوں کی ہوگی ہمارے ملک سے ہونے والی ہے. اور آج رات ہی سر تیلنگانہ کے بہت بڑے شاپنگ مول میں دھماکہ ہونے والا ہے۔۔۔ پر سر تیلنگانہ میں چار مول بہت بڑے ہے. یہ نہیں معلوم کہ اب کون سا شاپنگ مول ہے ..دونوں کام ایک ہی وقت پر ہوگے سر..
ساری بات کرنل محمود کو بتہ کے وُہ اُنکے چہرے کو دیکھ رہا تھا.. سر اب کیا آرڈر ہے ؟ جب کوئی جواب نہیں ملا تو میجر شام نے پوچھا..
سارے بڑے بڑے ہائی وے پر ناکہ بندی کر دو ہے ایک چھوٹے سے چھوٹے گاڑیوں کو وہاں سے نکلنا نہ پائے سب کو چیک کیا جائے .
اور آپ لوگ پتہ لگاؤ کہ کون سا شاپنگ مال ہے وُہ جس میں بمب بلاشٹ کی پلاننگ کی جا رہی ہے..
"پر سر ! وقت نہیں ہے یہ سب کرنے کا ہمارے پاس..
"جو ہو سکے کرو میجر شام .. آپکو پورا اقتدار ہے
آئی اینڈ ڈز کنٹریز آر وٹھ یو۔ گوڈ بلیس یو ۔
مسکرا کر کرنل محمود نے شام سے مصافحہ کیا اور آخر میں گلے سے لگا کر بیسٹ آف لک بولا تھا...
اُسکے بعد میجر شام سلیوٹ کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا.....
آج کا مثن بہت خطرناک تھا. کون زندگی موت کے درمیان تھا کوئی نہیں جانتا تھا.. ایک گھنٹے کے اندر اندر پوری حیدرآباد اور اُسکے آس پاس کی سیٹی کو بند کر دیا گیا تھا ہے راستہ ہر جنگل سب جگہ ناکہ بندی لگا دی گئی تھی مہاراشٹر کی پولیس کو انفارم کر دیا گیا تھا... کہ وہ الرٹ رہے ...
............................❤️❤️❤️
" منہال اپنا خیال رکھیے گا. مئشا منہال کے سینے سے لگی بول رہی تھی..
"ہمم ! انشاءاللہ میری جان آپکی اور ماما اور باقی کے افراد کی میرے ساتھ دعائیں ہے پھر مجھے کیا ہونا ہے ..
"بسس آپ دعا کرنا کہ آج کا یہ مشن کمیاب ہو جائے . منہال نے مائشا کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے تو مائشا نے شدّت جذبات سے آنکھیں موند لیں تھی اور اُسکا لمس کو محسوس کیا جان منہال پرکشش آواز میں مائشا کو پُکارا اور پھر اُسکی نوز پن کو اپنے لبوں سے چھو کر سرگوشی کی تھی..
"انا احبك !! بدلے میں اُسنے اُسکے سینے میں اپنا وجود چھپایا اور آہستہ سے سرگوشی کی گئی "أحبك أيضا!!
اُسکے اس انداز پر منہال کھل کر مسکرایا تھا اور بولا "آپکی یہ عادت نہیں جانے والی اور ہم کو یہ ہی آپکی عادت بناتی ہے دیوانہ .... اپنے اندر بھینچتے ہوئے منہال نے اُسکے کانوں میں رس گھولا تھا اور دعاؤں محبّت کے درمیان سے ہو کر وُہ مشن کے لیے روانہ ہو گیا تھا....
ایک بار پھر اُسکے ملک نے اسکو یاد کیا تھا اور وہ جی جان سے اپنے ملک کی طرف بڑھ گیا تھا..
My country is my passion, in whose arms is my peace...
............................❤️❤️❤️❤️
اُسنے کسی کو کال کی دس منٹ کے بعد ہی وہ شخص اُسکے سامنے کھڑا تھا.. جیری نے سامنے اپنے بھائ کو دیکھا تو آنکھوں میں بے شمار آنسوں آ گئے تھے.....
"کیسی ہو آپی ؟ آنکھوں میں آنسوں لیے عامر نے اپنی آپی سے پوچھا...
"بہت اسٹرونگ تمہاری توقع کے مطابق آنکھوں میں آنسوں ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے جیری نے اپنے بھائی سے کہا.. اس بیچ عمائمہ بلکل خاموش نظریں جھکائے بیٹھی تھی...
"عامر ! کین يو ہیلپ می ؟ ایک آس سے جیری نے اپنے بھائی کو دیکھتے ہوئے پوچھا....
"سیور آپی ! آپکے لئے آپکے بھائ کی جان بھی موجود ہے .. عامر نے آج بہت دنوں بعد اپنی بہن کو دیکھا تھا.....
"تُم عمائمہ سے نکاح کر لو ! یہ سنتے ہے عمائمہ کے پاؤں تلے سے زمین خشک گئی تھی جبکہ بے اختیار عامر نے عمائمہ کو دیکھا تھا..
"پر آپی ؟ وُہ کچھ کہنا چاہتا تھا جسکو جیری نے درمیان میں ہی روک دیا تھا.. "کبھی کبھی کسی کی جان بچانے کے خاطر ہمکو وُہ کرنا ہوتا ہے جان جسکو ہم کبھی کرنے کا سوچتے نہیں ہے..
"اور اگر آپکے دل میں یہ خیال آ رہا ہے کہ یہ کوٹھے اور رہنے والی ہے تو یہ ہرگز نہیں ہے کیونکہ میں اسکی پاک دامن ہونے کہا منہ بولتا ثبوت ہوں عامر میں نے کی ہے اسکی حفاظت ....
"جیری کو لگا اُسکا بھائ غلط لے اور سوچ رہا ہے پر وُہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جیرش روہیل خان کا بھائ ہے جو کبھی غلط سوچنے کا بھی نہیں سوچے گا پھر یہ تو کہی آتا ہے نہیں خاطر میں....
"نہیں آپی ایسی بات نہیں ہے !! اچھا میں کرتا ہوں نکاح آپ ان سے پوچھ لیں...
عمائمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عامر نے اپنی آپی سے کہا تھا عمائمہ کی صرف آنکھیں چمک رہی تھی کیونکہ اُسنے اپنے ارد گرد چادر کو دھنمپا ہوا تھا...
اور ایک لڑکی کا کرادار اُسکے پہناوے اُسکے انداز سے پتہ چل جاتا ہے ..
"عمائمہ کی تُم فکر نا کرو وُہ میری بہن ہے کبھی میری بات نہیں رد نہیں کرے گی تُم اپنا بتاؤ ." جیری نے عامر کو دیکھا تھا....
"میں بھی آپکا بھائی ہوں کبھی آپکا سر نہیں جھکنے دونوں گا میں نکاح میں لیے تیار ہوں... عامر نے اپنی بات پوری کرتے ہوئے اپنی بہن کے ہاتھوں کا بوسا لیا تھا....
"اوکے پھر آؤ میرے پیچھے ! یہ بول کر وُہ عمائمہ ما ہاتھ پکڑے ریسٹورانٹ سے باہر نکل گئی تھی جبکہ عامر بھی اُسکے پیچھے ہو لیا تھا.۔۔۔
"ایک گھنٹے کے بعد عمائمہ اقبال سے عمائمہ عامر احمد بن گئی تھی... آج اُسکی عزت کا محافظ بن کر عامر سامنے آیا تھا ... کبھی کبھی خواہشیں بہت جلدی پوری ہو جاتی ہے....
ہلکے پھلکے سے انداز میں وُہ دونوں تیار ہو کر کوٹھے پر پہنچی تو اُن دونوں نے دیکھا کہ کوٹھے کو بہت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا ہے ہر طرف رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگاتا یہ کوٹھا آنکھوں کو چندھیا رہا تھا....
"تیری تو دیکھو جیسے بارات آنے والی ہو .... عمائمہ نے ستائش نظروں سے کوٹھے کو دیکھ کر کہا تھا...
"ہہہہ بارات تو انے والی ہی ہے لیکن انکو حوالات کی ہوا کھلانے کے لیے۔ جیری نے دل میں سوچا اور آگے بڑھ گئی
جب وہ دونوں اندر گئی تو سب انکی طرف متوجہ ہوئے اُنکو ستائش بھری نظروں سے تک رہے تھے...
جیری نے گولڈن لہنگے پر فل آستین والا جیکر کی کوٹی کا لہنگا پہنا ہوا تھا ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہن رکھی تھی گولڈن رنگ کی ہی اور اُسکی ہم رنگ جویلری میں ہلکے سے میکپ میں وُہ ہیرا بن کے چمک رہی تھی اُسکے سامنے سب کی تیاری پھیکی سی لگی وہاں پر موجود ہر فرد کو اپنی...
عمائمہ مستانی گھیرا دار فروک پر پلازو پہنے ہلکے سے میکپ میں ہلکی جویلری پہنے وُہ بھی ایک پاری سے کم نہیں لگ رہے تھی.....
"واہ جیا کمال حسن رکھتی ہو بھئی تُم تو.. مبین نے اسکو سر تا پا دیکھ کر کہا اور پھر بولی تمہارے اس حسن کی آگ میں نہ جانے کتنے لوگ جل کر خاکستر ہونے والے ہے۔۔ مبین بیگم نے جیا کی تعریف کی تھی...
اُنکی نظر جیا کی گردن اور ٹھہری تھی.. جیا کے گلے میں ایک لاکٹ تھا جسکی چمک بہت ہی خوبصورت تھی جو کہ ہے کِسی کو اپنی جانب کھینچ سکتی تھی...
"جیا یہ لاکٹ بہت خوصورت ہے کہاں سے لائی تُم اسکو ؟ مبین نے لاکٹ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا ..
"یہ جیا نے اپنی گردن میں پہنے لاکٹ کو دیکھا اور ہاتھ سے چھوا تھا.. ایک احساس اُسکے اندر گردش کرنے لگا آنکھوں کی چمک بڑھی تھی جبکہ چہرے اور درد کے آثار اور بڑھ گئے تھے
"محبّت بھی کیا عجیب سے ہوتی ہے انسان کو کیا سے کیا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔۔
"ابھی خریدا ہے اچھا لگا تو پہن لیا چاہئے آپکو؟ ٹرانس سی اسکو بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا بول رہی ہے...
"نہیں جیا یہ آپ پر ہی اچھا لگ رہا ہے ۔ عمائمہ اُسکی حالت کو سمجھ گئی تھی جلدی سے بولی
وُہ ایک دم ٹرانس سے باہر نکلی تھی.. اور سختی چہرے پر اُسکے ڈر آئی تھی"فنکشن کب شروع ہوگا ؟ اُسنے مبین کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے چبا چبا کر پوچھا....
"بس گیارہ بجے تک .. مبین سے پہلے جیوری بیگم نے جواب دیا تھا... "ٹھیک عمائمہ آپ روم میں جاؤ ابھی میری تیاری باقی ہے .ویسے بھی ابھی میں تیار نہیں ہوئی آپکو تو پتہ ہی ہے آج رات مجھے مسٹر ایکس کے ساتھ جو گزارنی ہے .. ایک ادا سے بالوں کو ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوئے جیری نے اُن سب کو دیکھا رہا اور کسی کی بھی سنئے بغیر وُہ باہر نکل گئی تھی جبکہ مبین بیگم تلملا کر رہ گئی تھی۔
"جیوری تُم پوچھتی بھی ہو اس سے کہ یہ کہاں کیسے بغیر بتائے چلی جاتی ہے ؟ مبین نے غصے سے جیوری سے کہا تھا.. جیا کی اس حرکت سے اُنکو بھی اُس پر بہت غصّہ اتا تھا لیکن وُہ برداشت کر جاتی تھی۔۔۔
کچھ نہیں ہوتا مبین صبر کرو ویسے بھی اسکے ہو اتنے پر نکلے ہوئے ہے وُہ مسٹر ایکس بہت جلد کاٹ دے گے ہمیں کیا ہمکو تو بسس اس کمائی کرنی ہے۔ آہستہ سے مبین کے نزدیک ہوتے جیوری نے کہا تھا...
"اور وہ تو سنا ہی ہوگا کام کرنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے.... "سو ریلیکس اینڈ کالم ڈاؤن...
جیوری نے مبین سے کہا جس پر وُہ خاموش ہو گئی تھی....
کبھی کبھی انسان دوسروں کو بیوقوف بناتے بناتے خود ہی بیوقوف بن جاتا ہے اس لیے کسی انجان پر حد سے زیادہ بڑھ کر اعتماد کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے آستین میں سانپ پالنا آج کل تو اعتماد کے لائق اپنے خون کے رشتے ہی نہیں دور کے رشتوں سے کس بات کی توقع پھر..
Trust but don't overdo it.
(بھروسہ کریں لیکن زیادہ نہ کریں)
Confidence is a precious virtue, but overconfidence is a sign of a sick mentality.
(اعتماد ایک قیمتی خوبی ہے ، لیکن زیادہ اعتماد بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔)
..............................❤️❤️❤️
"ہاں ! بار بار کال کیوں کر رہے ہو ؟ جیا اُس علاقے سے بہت دور مارکیٹ علاقے میں آ گئی تھی بلو ٹوتھ آن کرتے ہوئے اُسنے بالوں کو ٹھیک کیا...
"میم آپ سے میجر شام ملاقات کرنا چاہتے ہیں . دوسری طرف سے ایس ایچ او منیش نے بتایا...
"کب ؟ اُسنے خود کو نارمل کرتے ہوئے پوچھا تھا جبکہ شام کے نام پر اُسکے دل کی حالت ابتر ہو گئی تھی دل تھا کہ دیکھنے کو مچلنے لگا تھا جبکہ دماغ منا کر رہا تھا ملنے سے....
"ابھی ! منیش نے بتایا... "اُنسے کہو کہ میں نہیں ملنا چاہتی اُن سے . اور خٹاک سے فون کاٹ دیا ...
اور ایک شاپ کے اندر چلی گئی تھی .. وُہ شائد بیوٹی سیلون تھا جس میں وُہ گھسی تھی....
آدھی پون گھنٹے بعد وہ اُس سیلون سے باہر نکلی آٹو پکڑا اور اپنی منزل کی طرف بڑھ گئی .....
...........................❤️❤️❤️❤️
روتے چلاتی لڑکیوں کی آوازیں بہت بری طرح اُن سب کو تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور مانو وہاں پر موجود اھوانوں کی فوج اُنکی بے بسی پر ہنس رہی تھی......
"ہم مم کک کو چھ چھوڑ دد دیجئے !! ایک لڑکی بیہوشی کی حالت میں روتے ہوئے بولی درد کی لہر نے اُسکے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا.....
ہونٹ کے کنارے سے خون بہہ رہا تھا جبکہ چہرا رونے کے باعث سوجھا ہوا تھا.....
"ہاہاہاہا ہاہاہا ... اُسکی حالت کو دیکھ وُہ سب ہنسنے لگے تھے.. "بوس میں کیا کہتا ہوں کیوں نہ آج کی رات لطف لیا جائے خباثت سے ایک شیطان نے مشورہ دیا تھا آنکھوں میں ہوس بھری شیطانیت لیے وُہ اُس لڑکی کو گھور رہا تھا........
"بات تو تیری سو آنے درست ہے ... آج تو تیرے برتھڈے بھی ہے نہ ؟ اُسکے بوس نے کچھ سوچ کر آنکھ مارتے ہوئے پوچھا ...
"جی بوس!! آج اپون کا جنم دن ہے رے.... اُسنے خوش ہوتے ہوئے بتایا.... "چل آج میری طرف سے تیرے لیے تحفہ ہے بتہ کون سے چھوکری سے اپنی رات سُہانی بنانا چاہتا ہے.........
وہاں پر موجود لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُسکے بوس نے ہنستے ہوئے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے کہا .....
"بوس!! وُہ جو چودہ سال کی چھوکری ہے جسکو آج صبح ہی لائے تھے آج کی رات اُسکے ساتھ !!! استغفِرُاللہ...... گذارنا چاہتا ہوں خباثت سے ہنستے ہوئے اُسنے اپنے دانت دکھائے تھے........
"واہ رے پیور مال پر ہاتھ مارا ہے بھئی .. چل تو کیا یاد کرے گا آج کی رات تیرے نام .... اُسکے بوس نے اجازت دے دی تھی اور وہ شخص دانت دکھاتے ہوئے خباثت سے مسکرایا اور باہر نکل گیا تھا.........
"جیوری بیگم اور مبین جی کو فون لگا اور اُنسے بول کہ آج رات میں آ رہا ہوں مال لینے کیونکہ یہاں سے ہمیں آج کی رات مافیہ کے لیے روانہ ہونا ہے .. اُسکے جاتے ہی اُسکے بوس نے اپنے ایک آدمی کو حکم دیا تھا......
"ٹھیک ہے بوس!! بوس ویسے کون کون 'یو ایس اے ' جانے والا ہے ؟ ایک نوجوان نے اپنے بوس سے پوچھا....
"کیا رے تُجھے کام کرنے کا بولا ہے رے آپون سے سوال کرنے کا نہیں!!! غصے سے اسکو گھورتے ہوئے اُس بوس نے سوال کرنے والے لڑکے سے کہا تھا....
"و و وہ تتو میں ایسے ہی پوچھ رہا تھا بوس !! گھبرا کیوں لڑکا بولا اور پھر وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی تھی اُسنے
..........................❤️❤️❤️❤️❤️❤️
لگاتار دو گھنٹے میٹنگ ہونے کے بعد میجر سمعان نے اپنے کچھ جونئیر آفیسر سے کہا ... "آپ سب اپنا اپنا حلیہ بدل کر گنڈوں ماوالیوں کا روپ دھار لیں اور ہر اُس جگہ پھیل جائے جہاں آپ سب کو یہ لگتا ہو کہ یہاں سے ہمیں کچھ حاصل ہو سکتا ہے .....
پورے شہر میں پچاس پچاس کا ایک گروپ بن کر پھیل جاؤ ... اور آپ سب کون ٹریٹ کرے گے مسٹر انس ، مسٹر روهام مسٹر جیکو اور مسٹر ویر سنگھ ...
چھوٹی سی چھوٹی بات ہمیں پتہ چلنی چاہئے کوئی بھی یہاں سے نکل نہ پائے .... جب تک ایک کام کو انجام دے کر آتے ہیں .... اور ایک اور بات سب ایک دوسرے سے کانٹیکٹ میں رہے گے...
"اٹس ڈیٹ کلیئر؟ اُن سب کو دیکھ پوچھا گیا..
"یس سر !!! ایک بلند آواز ۔عین سب بولے اور آگے پیچھے سلیوٹ کرتے باہر نکل گئے اب وہاں پر صرف تین شخص موجود تھے......
"ہمارے لیے کیا حکم ہے .؟ موہی ، شاہی نے ایک ساتھ پوچھا اُسنے اَپنا رخ اُن سے موڑ لیا رہ رہ کر اسکو اُس لڑکی پر غصّہ آ رہا تھا .....
"موہی تمکو جی کام دیا تھا وُہ ہوا ؟ شام نے اُس سے پوچھا ...
"ہاں ! ہو گیا پوری مہاراشٹر اور گجرات ہر اُس جگہ کو ہم نے انفورم کر دیا ہے جہاں جہاں پر بندرگاہ لیے جاتے ہیں.. لیکن 'یو ایس اے ' جانے کے لیے اکثر ممبئی کا سب سے بڑا بندرگاہ جواہر لال نہرو بندرگاہ اس سے اکثر مافیہ جاتے ہیں
اور جہاں تک مجھے اندازہ ہے یہی سے اسمگلنگ کی جائے گی ... اُسکی بتاتے ہوئے موہی نے آخر میں اپنی سوچ بھی اُسکے سامنے پیش کی تھی..
"ہاں میجر شام موہی ٹھیک بول رہا ہے ... اور اسکو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے مہارشٹر کے میجر منہال کو انفرم کر دیا ہے اور وُہ اپنی فوج کو لے کر وہاں پر تعینات ہوئے جائے گے ....
شاہی نے بھی بتایا... ٹھیک ہے!!! شام نے بس اتنے پر ہی اکتفا کیا اور اُسکے بعد بولا پھر چلتے ہے مشن کو انجام دینے ....
"آر یو ریڈی ؟ بولتے ہوئے اُسنے پوچھا جس پر سیلوٹ کرتے ہوئے وُہ دونوں اُسکے پیچھے ہو کر نکل گئے تھے.........
جیت جائیں گے ہم، جیت جائیں گے ہم
تو اگر سنگ ہے
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے
تو نے ہی سجائے ہیں میرے ہونٹوں پہ یہ گیت
تیری پریت سے میرے جیون میں بکھرا سنگیت
میرا سب کچھ تیری دین ہے میرے من کی میت
میں ہوں اک تصویر تو میرا روپ رنگ ہے
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے
حوصلہ نہ چھوڑ، کر سامنا جہان کا
وہ بدل رہا ہے دیکھ رنگ آسمان کا
یہ شکست کا نہیں یہ فتح کا رنگ ہے
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے
روز کہاں ڈھونڈیں گے سورج چاند ستاروں کو
آگ لگا کر ہم روشن کر لیں گے اندھیاروں کو
غم نہیں جب تلک دل میں یہ امنگ ہے
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے
از قلم
آنند بخشی
...............................
وُہ ایک رہائش پزیر علاقہ تھا جہاں پر وُہ اپنا لہنگا تھامیں آگے بڑھ رہی تھی ٹائٹ گلیاں چھوٹے چھوٹے گھر وہاں پر اتنا رش تھا کہ بمشکل ہی کوئی اپنی گاڑی وغیرہ کھڑی کر سکتا تھا...
ٹوٹے پھوٹے سڑکیں پانی سے کیچڑ سے بھرا پڑا تھا.. وُہ آج تک ایسی جگہ نہیں آئی تھی... بہت عجیب سا علاقہ تھا یہ اُسنے چاروں اطراف کا جائزہ لے کر ایک بورڈ کی طرف دیکھا جہاں بڑے بڑے لفظوں میں حیدرآباد جھوپر پٹّی لکھا ہوا تھا....
اُسنے ہاتھ میں پہنی واچ میں وقت دیکھا تو رات کے ساڑھے آٹھ ہو رہے تھے یعنی ابھی وقت تھا اُسکے پاس .. وُہ مطمئن سی آگے بڑھی .... بلیو ٹوتھ آن کیا اور آگے ہی بڑھنے لگی تھی کہ کسی نے اُسکی کلائی پکڑ کر ایک اندھیرے نما گھر کی اوٹ میں لیا تھا....
اس آفت سے بچنے کے لیے وُہ کچھ کرتی کہ مقابل نے اُسکے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اس قدر اپنے شکنجے میں جکڑا تھا کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی.....
وُہ اس شخص کی خوشبوں سے ہی پہچان گئی تھی کہ یہ شخص کون ہو سکتا ہے؟ اُسکی خوشبوں کو اپنے اندر اُتارتے ہوئے وُہ گویا ہوئی....
"چھوڑے مجھے اپنا کام کرنے دیں..!
"نہیں اب تُم کچھ نہیں کرو گی! مقابل نے اُسکے لبوں کو دیکھ کر کہا... اس بات پر جیری کی آنکھیں کھلی کہ کھلی رہ گئی تھی .... حیرت سے اُسنے پوچھا
"بٹ وائے ؟ "کیونکہ یہ میں بول رہا ہوں .. میجر شام نے اُسکے سراپہ حسن سے نظریں چرا کر جواب دیا......
" اور میں آپکے حکم کی پابند نہیں ہوں ! اُسنے اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر بے خوف ہو کر جواب دیا.......
"ویسے بھی آپ کون ہوتے ہے مجھے روکنے والے؟ اُسنے شیقوا کنہ نظروں سے شام نے کہا تھا... " شوہر ہوں تمہارا !!! بے اختیار اُسکے لبوں سے نکلا تھا.....
"واؤ شوہر .. لیکن میں نہیں مانتی اب ہٹے میرے راستے سے مجھے کوئی پُکار رہا ہے !!! اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ بولی.....
"ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے.. اُسکی کوئی بھی بات خاطر میں نہ لاتے ہوئے وُہ بولا... "آپکو نہیں لیکن اس ملک کو ہے اور آپسے پہلے ہمارا رشتا اس ملک سے ہے ہم بھارت کی بیٹی ہے اور آپ ہمیں روکنے والے کوئی نہیں ہوتے......
اُسنے بھی اُسکے ہی انداز میں بے خوفی سے جواب دیا تھا بلکہ بتانا ضروری سمجھا تھا......
"اُوه ہ ہ واؤ بھارت کی بیٹی !! ہاہاہاہا ہاہاہاہا وُہ بول کر ہنستا ہی چلا گیا تھا اور جیری کو اُسکی ہنسی میں اپنی تذلیل ہوتی دکھائی دی تھی....
"ہممم بھارت کی بیٹی !! اُسنے ایک بار فائر زور دے کر اسکو بتایا تھا....
"ہہہہ اُس دن کہاں گئی تھی بھارت کی بیٹی جب یہ بیٹی اپنے لیے بھی سٹینڈ نہیں لے سکتی تھی جب یہ ڈرپوک تھی ! طنز کرتے ہوئے شام نے اسکو جیسے نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی...
اُسکی بات پر جیری کو ایک دم سے بے انتہا غصّہ آیا جس پر اُسنے خود کو کنٹرول کیا تھا...." میں جب ڈرپوک تھی پر اب نہیں ہوں اور رہی بات تو آپکو کیوں اتنا فرق پڑ رہا ہے ؟ ہم مرے جیے آپ سے مطلب ہمارے ساتھ اچھا ہو یا بُرا کچھ بھی کریں آپکو فرق نہیں پڑنا چاہئے .... ایک دم سے اُسنے غصّے میجر شام کا ہاتھ جھٹکے سے ہٹایا تھا اور آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اُسنے بہنے دیا تھا غصّے اور درد سے وُہ آگے بڑھ گئی تھی کچھ بڑ بڑاتی ہوئی..
رابطے ٹوٹ چکے ہیں صدائیں کیسی
اب جو ملنا ہی نہیں ہے تو وفائیں کیسی
اسکو دیکھتے ہوئے اُسنے اپنے قدم پیچھے کو لیے اور پھر جھٹکے سے پلٹ گئی آنکھوں میں بے شمار آنسوں تھے اُسکے پلٹنے پراُسکے لمبے بال کمر پر لٹک گئے تھے سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں شام نے اسکو جاتے دیکھا اور جب اُسکے بالوں پر نظر گئی تو ایک دم واٹر اسپلیش پارک والا منظر اُسکی آنکھوں میں گھوم گیا تھا...
"جیری !!! دل نے شور کرنا شروع کر دیا تھا آج اتنے دنوں بعد اُسکا دل مسکرایا تھا.. وہی احساس جو اسکو اُس لڑکی کو دیکھ کر ہوا تھا آج اس احساس نے اسکو چاروں اطراف سے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا....
"وُہ چاہنے کے باوجود بھی اسکو نہیں روک پایا وُہ آنکھوں سے دور ہوتی گئی اور دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ایک خوف اُسکے وجود میں سرائیت کر گیا تھا۔۔
وُہ محبّت کرنے لگا تھا اس لڑکی سے جسکو اب وُہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا..
وُہ اُس سے بدگمان تھا لیکن جب تک جب تک اُسکی سچائی سے نا واقف تھا جب سچائی اُسکے سامنے کھول کر آئی تو اسکو پتہ ہی نہیں چلا کب وُہ اسکو سوچنے لگا اور کب اُسکی محبّت میں مبتلا ہو گیا... اسکو جو تھوڑی بہت بدگمانی تھی وُہ ویڈیوں کو دیکھ کر ختم ہو گئی تھی آج وُہ اسکو اس مشن سے پیچھے ہٹنے کو بھی اس لیے ہی بول رہا تھا کہ جیری اور اسکے دشمن کا ایک دوسرے سے کوئی وابسطہ نہیں تھا اُسکے دل نے تو اس دن ہی جیری کو اپنا مان لیا تھا جس دن اُسنے وُہ ویڈیو دیکھی تھی آج تو وہ اسکو اپنے ہونے کا ان سب سے دور رہنے کا اور اُسکی حفاظت اور محفوظ کرنے غرض سے آیا تھا...
وُہ اس لڑکی کو کھونا نہیں چاہتا تھا... اُسکے اندر اسکو خو دینے کے خوف نے سر اٹھایا جسکو بار بار وُہ انکار کر رہا تھا......
کیا سمعان احمد کا عشق مکمل ہو پائے گا یا شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گا؟
کیا اُسکا خوف سچ میں تبدیل ہو جائے گا ؟
کیا ہوگا آخر اُسکی زندگی کے ساتھ؟
.........................❤️❤️❤️❤️❤️❤️
کبھی روگ نہ لگانا پیار + تحمّل عشق از ملیحہ چودھری اسپیشل دھمال آپ پڑھ سکتے ہیں...
سبھی قرائن سے گزارش ہے کہ ایپی کو پڑھ کر ہر ایپی پر اپنے ریوویز دیا کریں.. ووٹ شیئر اینڈ کمینٹ لازمی دیں...
ایپی پڑھ کر ضرور بتائیے گا کہ کیساگا ایپی آج کا آپ سب کو ۔۔۔